تاشقند کے دل میں واقع اسلامی تہذیب کا شاہکار: مرکز برائے اسلامی تہذیب
‘حضرت امام کمپلیکس’ کی پرنور فضا میں قائم ازبکستان کا مرکز برائے اسلامی تہذیب، عالم اسلام کے علمی و ثقافتی ورثے کی بحالی کا ایک منفرد اور عظیم الشان منصوبہ ہے۔ صدارتی فرمان کے ذریعے معرض وجود میں آنے والا یہ علمی و ثقافتی شاہکار نہ صرف اسلامی تہذیب کے گمشدہ جلال و جمال کو بحال کرے گا، بلکہ آنے والی نسلوں کو اسلامی علوم و فنون سے آراستہ کرنے کا ایک مستند ذریعہ بھی ثابت ہوگا۔
یہ مرکز اسلامی تاریخ کے عظیم ترین مفکرین، سائنسدانوں اور علماء کرام کے علمی کارناموں کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کرے گا، خاص طور پر علم و حکمت، ثقافت اور تعلیم کے شعبوں میں ان کے انمٹ نقوش کو اجاگر کرے گا۔ بین المذاہب ہم آہنگی اور بین الثقافتی روابط کو فروغ دینے کے لیے یہ ادارہ یونیسکو اور آئیسیسکو جیسے معتبر بین الاقوامی فورمز کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
یہ عظیم الشان مرکز نہ صرف ازبکستان کا قیمتی علمی و ثقافتی اثاثہ ہے، بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے فخر کا باعث اور امید کی کرن ہے، جو اسلامی تہذیب کے گمشدہ وقار کو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
————————
ازبکستان، ایک ایسی سرزمین جس کی رگوں میں تاریخ اور علم کی وراثت رچی بسی ہے، تاشقند میں "مرکز برائے اسلامی تہذیب” کے قیام کے ساتھ اسلامی علم وحکمت کے ایک عالمی مرکز کے طور پر اپنی شناخت کو اور بھی پختہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ تاریخی حضرت امام کمپلیکس کے قلب میں واقع یہ عظیم الشان منصوبہ، جس کا آغاز صدارتی حکم نامے کے تحت ہوا ہے، اسلامی ثقافتی ورثے کی حفاظت کے ساتھ ساتھ تعلیم، سائنسی تحقیق اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان بات چیت کو فروغ دینے کا عزم رکھتا ہے۔ اپنے دلکش تعمیراتی انداز، جامع تحقیقی منصوبوں اور صف اول کے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون کے ذریعے، یہ مرکز بلاشبہ علم کا ایک مینار ثابت ہوگا اور عالمی ترقی میں اسلامی تہذیب کے گراں قدر حصہ کو نمایاں کرے گا۔
علمی اور ثقافتي ورثہ کا یہ شاندار نمونہ، جو عبد القاهر توردييف کے فنکارانہ تخیل کا عکاس ہے، 7.5 ہیکٹر کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تین منزلہ عمارت، جس کا حجم 42,000 مربع میٹر ہے، ایک دلکش 65 میٹر اونچے گنبد سے مزین ہے، جو تاشقند کے آسمان کو ایک نیا اور جاذب نظر منظر پیش کرتا ہے۔ اس کی تعمیر میں روایتی ازبک فن کی خوبصورتی اور جدید ٹیکنالوجی کی سہولتوں کو نہایت عمدگی سے یکجا کیا گیا ہے، جو ماضی کی عظمت اور مستقبل کی ترقی کے درمیان ایک مضبوط ربط کی علامت ہے۔
اس مرکز کے مندرجہ ذیل اہم حصے ہیں:
- قرآن ہال: اس مقدس ہال میں مصحف عثمانی رکھا گیا ہے، جو کہ قرآن کریم کے قدیم ترین محفوظ نسخوں میں سے ایک ہے۔
- اسلامی تہذیب کا میوزیم: 8,350 مربع میٹر پر پھیلا یہ شاندار میوزیم نایاب قلمی نسخوں، قدیم سائنسی آلات اور انمول نوادرات کا خزانہ ہے۔
- وسیع وعریض لائبریری: دو لاکھ سے زائد مطبوعہ کتب، نادر ونایاب مخطوطات اور دس لاکھ سے زیادہ ڈیجیٹل وسائل پر مشتمل یہ کتب خانہ علم کا ایک بحرِ بیکراں ہے اور عالمی سطح پر تحقیق کے لیے ایک اہم مرکز ثابت ہوگا۔
- 550نشستوں پر مشتمل کانفرنس ہال: یہ وسیع ہال علمی مباحثوں اور ثقافتی پروگراموں کے انعقاد کے لیے ایک شاندار جگہ ہے۔
- ایک جدید لیباریٹری: یہ خصوصی لیباریٹری تاریخی تحریروں اور قیمتی نوادرات کو محفوظ کرنے اور ان کی مرمت کے لیے وقف ہے۔
عالمی اشتراک عمل
اس مرکز نے بین الاقوامی سطح پر ممتاز اداروں کے ساتھ مضبوط رشتے استوار کیے ہیں، جن میں یونیسکو، آئیسیسکو، آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز، اسلامک آرٹس میوزیم ملائیشیا، ترکی کی سلیمانیہ لائبریری اور اٹلی کی بولوگنا یونیورسٹی لائبریری شامل ہیں۔ یہ باہمی تعاون بین الاقوامی نمائشوں کے انعقاد، قیمتی علمی ورثے کو ڈیجیٹل شکل دینے کے منصوبوں اور دانشوروں کے تبادلوں کو فروغ دے گا، جس سے یہ مرکز عالمی اسلامی علوم کے ایک اہم محور کے طور پر اپنی حیثیت کو مزید مستحکم کرے گا۔
تحقیقی اور علمی کاوشیں
مرکز کا طویل مدتی "روڈ میپ” تین مراحل پر مشتمل 823 سائنسی تحقیقی منصوبوں کا جامع خاکہ پیش کرتا ہے، جن میں ازبکستان اور دیگر ممالک کے 4,400 سے زائد نامور علماء اپنی علمی بصیرت کے ساتھ حصہ لیں گے۔ یہ اہم اقدام اسلامی سائنسی ورثے کو ایک نئی زندگی بخشنے کی عکاسی کرتا ہے، جس میں اسلامی تاریخ کے عظیم اسکالرز، جیسے خوارزمی، فارابی، ابن سینا، وغیرہ، کے گراں قدر کارناموں کو اجاگر کیا جائے گا:
یہ تمام منصوبے ریاضی، علمِ فلکیات، طب اور فلسفے میں مسلمانوں کی شاندار خدمات کا عمیق مطالعہ کریں گے اور اس حقیقت کو مزید پختگی عطا کریں گے کہ اسلامی تہذیب یورپی نشاۃ ثانیہ کے پیچھے ایک فعال اور کلیدی قوت تھی۔
تعلیم کے ذریعے انتہا پسندی کا سدِباب
مرکز کا ایک بنیادی اور اہم ترین مشن تعلیم کے ذریعے انتہا پسندی کی بیخ کنی کرنا ہے، جس کے لیے وہ اسلام کی عالمگیر اقدار یعنی امن، رواداری اور علمی جستجو کو عام کرے گا۔ سائنس اور ثقافت کے میدان میں مسلمان دانشوروں کی لازوال کامیابیوں کو نمایاں کر کے، یہ مرکز ان گمراہ کن انتہا پسندانہ تصورات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم رکھتا ہے جو اسلامی تاریخ کو غلط رنگ میں پیش کرتے ہیں۔
اسلامی فکری تاریخ کے ایک صفِ اول کے محقق ڈاکٹر احمد دلال اس حوالے سے کہتے ہیں:
"اسلامی تہذیب نے ہمیشہ عقل ودانش پر مبنی تحقیق اور سائنسی اکتشافات کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اس نوعیت کے ادارے انتہا پسندانہ افکار سے اس حقیقی بیانیے کو بازیاب کرانے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔”
ثقافتی اور تاریخی تناظر
مرکز کی کاوشوں کو پانچ جامع موضوعاتی حصوں میں ترتیب دیا گیا ہے:
- ما قبل اسلامی تہذیبیں: اس حصے میں وسطی ایشیا کے قدیم اور شاندار ورثے کی گہرائی میں اترنے کی کوشش کی جائے گا۔
- پہلی نشاۃ ثانیہ کا دور: یہ حصہ اسلامی سائنس کے سنہری دور (آٹھویں سے چودہویں صدی عیسوی) کی تابناک تاریخ کو اجاگر کرے گا۔
- دوسری نشاۃ ثانیہ اور خانیت کا دور: اس حصے میں تیموری اور ازبک علمی روایات کے ارتقاء اور عروج کا مطالعہ پیش کیا جائے گا۔
- بیسویں صدی میں ازبکستان: یہ حصہ سوویت دور حکومت میں اسلامی فکر کی صورتحال اور ارتقاء کا جائزہ لے گا۔
- نئی نشاۃ ثانیہ، نئی فکر: یہ حصہ اسلامی فکر وتحقیق کے میدان میں عصر حاضر کی اہم اور جدید خدمات کو نمایاں کرے گا۔
اس کے علاوہ، ایک خصوصی باب ان با اثر تاریخی خواتین شخصیات کو خراج تحسین پیش کرے گا، جنہوں نے بی بی خانم کی طرح علم وفن کی سرپرستی کی اور جو آج کی علمی میدان میں کام کر رہی خواتین کے لیے ایک روشن مثال ہیں۔
گزرے زمانوں کی داستانیں، نوادرات کے انمول خزانوں، دست نویسوں کے نادر نقوش، دلکش تصاویر اور جدید ملٹی میڈیا کے سحر انگیز امتزاج سے رقم کی گئی ہیں۔ خاص طور پر ان نامور علماء اور صاحبانِ فکر کی ہمہ جہت علمی کاوشوں کو اجاگر کیا گیا ہے جن میں الخوارزمی، الفرغانی، الفارابی، البیرونی، ابن سینا، محمود زمخشری، مرزا الغ بیگ، علیشیر نوائی، علی قوشجی اور دیگر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، ممتاز مفکرین جیسے امام بخاری، امام ترمذی، حکیم ترمذی، ابو منصور ماتریدی، ابو معین نسفی، قفال شاشی، عبدالخالق غجدوانی، نجم الدین کبریٰ، برہان الدین مرغینانی، بہاء الدین نقشبند اور خواجہ احرار ولی کی اسلامی تعلیم کی ترقی کے لیے گراں قدر خدمات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
اسلامی سائنسی تحقیق کا ایک عالمی مرکز
ازبکستان میں قائم "مرکز برائے اسلامی تہذیب” اسلامی فکری ورثے کو ایک نئی زندگی بخشنے کی جانب ایک جرات مندانہ اقدام ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کو تاریخی نوادرات کے تحفظ کے ساتھ ہم آہنگ کر کے، بین الاقوامی علمی اشتراک کو فروغ دے کر، اور مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کو پروان چڑھا کر، یہ مرکز بلاشبہ اسلامی علوم کے میدان میں ایک عالمی قیادت کی حیثیت اختیار کر لے گا۔
معروف مؤرخ جوناتھن بلوم (2020) نے بجا طور پر کہا ہے، "سائنس، فلسفہ اور ثقافت کے شعبوں میں عالم اسلام کی گرانقدر خدمات کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس نوعیت کے ادارے اس تاریخی غفلت کے ازالے کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔”
اپنے شاندار افتتاح کے ساتھ، یہ مرکز نہ صرف ماضی کے قیمتی ورثے کی حفاظت کرے گا بلکہ مستقبل کی علمی پیش رفت کی راہ بھی ہموار کرے گا، جس سے مشرق ومغرب اور روایت وجدت کے درمیان ایک پل کے طور پر ازبکستان کا اہم کردار مزید مستحکم اور نمایاں ہو جائے گا۔
والله الموفق
احمد صہیب ندوی
الامام گزٹ
نئی دہلی – بھارت
Email: info@al-emam.org
Al-Emam Al-Nadwi Education & Awakening Center
مزید پڑھیں:
https://president.uz/en/lists/view/7843
https://amorimcorksolutions.com/en-us/materials-applications/construction/projects/the-center-for-islamic-civilization-tashkent-uzbekistan/