Google search engine
صفحہ اولتاریخعہد وسطیٰ کے اسلامی ہسپتال، ترقی یافتہ طبی خدمات اور فلاحی ہسپتالوں...

عہد وسطیٰ کے اسلامی ہسپتال، ترقی یافتہ طبی خدمات اور فلاحی ہسپتالوں کی داستان

عہد وسطیٰ کے اسلامی ہسپتال طب کی دنیا میں ایک انقلابی باب تھے۔ یہ محض علاج گاہیں نہیں تھیں بلکہ فلاحی نظام کا مظہر تھیں۔ ایسے ہسپتال اور ڈاکٹر دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ بغداد، دمشق، اور قاہرہ میں قائم ان اداروں نے نہ صرف بہترین علاج فراہم کیا بلکہ تعلیم و تحقیق کو بھی فروغ دیا۔ امیر و غریب، ہر ایک کو مفت علاج، رہائش، خوراک اور حتیٰ کہ چھٹی پر گزارے کا الاؤنس بھی ملتا تھا۔ یہ نظام صحت آج بھی ہمارے لیے ایک مثالی نمونہ ہے۔

اسلامی عہد زریں کے ہسپتال: ایک مریض کے خط سے عیاں سہولیات کا نظام
ایک مریض کا اپنے والد کو لکھا گیا یہ خط اسلامی سنہری دور کے ہسپتالوں کی ترقی یافتہ صورتحال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ خط نہ صرف اُس وقت کی بے مثال طبی سہولیات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ کس طرح مریضوں کو مکمل آرام دہ اور فلاحی ماحول فراہم کیا جاتا تھا۔ اس میں نہ صرف طبی علاج، بلکہ رہائش، خوراک، اور حتیٰ کہ چھٹی پر مالی امداد کا ذکر بھی شامل ہے۔ یہ تفصیلات اسلامی تہذیب کی جانب سے انسانی فلاح و بہبود کو دی جانے والی غیر معمولی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ یہ اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ اسلامی دور کے فلاحی ہسپتال آج کے جدید طبی نظاموں کے لیے بھی ایک مثالی نمونہ پیش کرتے ہیں۔

 

محترم ابا جان،

آپ کا خط ملا جس میں آپ نے میرے لیے رقم لانے کے بارے میں پوچھا تھا۔ اس بابت میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب مجھے ہسپتال سے چھٹی ملے گی، تو انتظامیہ مجھے نہ صرف نئے کپڑوں کا ایک جوڑا دے گی بلکہ پانچ سونے کے سکے بھی عطا کرے گی تاکہ مجھے فوراً دوبارہ کام پر جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ لہٰذا، آپ کو اپنے ریوڑ سے کچھ بھی بیچنے کی مطلقاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔

تاہم، اگر آپ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں تو آپ کو جلد ہی آنا پڑے گا۔ میں اس وقت آپریشن تھیٹر کے بالکل ساتھ والے آرتھوپیڈک وارڈ میں زیرِ علاج ہوں۔

جب آپ ہسپتال کے مرکزی دروازے سے داخل ہوں گے، تو آپ جنوبی بیرونی ہال سے گزریں گے۔ یہ وہی پولی کلینک ہے جہاں مجھے گرنے کے بعد لایا گیا تھا۔ ہسپتال کا یہ حصہ اس لیے اہم ہے کہ یہاں ہر بیمار شخص کا ابتدائی معائنہ اسسٹنٹ ڈاکٹرز اور میڈیکل کے طلباء کرتے ہیں۔ جن مریضوں کو فوری طور پر ہسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں ہوتی، انہیں یہیں سے نسخہ (پرچی) دے دیا جاتا ہے جسے وہ ہسپتال کی ساتھ والی فارمیسی سے بنوا سکتے ہیں۔

معائنے کے بعد، مجھے وہاں رجسٹر کیا گیا اور ایک سینئر ڈاکٹر کو دکھایا گیا۔ پھر ایک گارڈ مجھے مردانہ وارڈ لے گیا، جہاں مجھے نہلانے کے بعد صاف ہسپتالی لباس پہنایا گیا۔

جب آپ ہسپتال آئیں تو براہِ کرم راستے کا خاص خیال رکھیں۔ آپ کو لائبریری اور بڑے لیکچر ہال جہاں ہیڈ فزیشین طلباء کو پڑھاتے ہیں، یہ سب آپ کے بائیں جانب پڑیں گے اور آپ انہیں پیچھے چھوڑ دیں گے۔ صحن کے بائیں جانب والا کوریڈور خواتین کے وارڈ کی طرف جاتا ہے، اس لیے آپ کو دائیں جانب رہنا ہوگا اور انٹرنل میڈیسن ڈیپارٹمنٹ اور سرجیکل وارڈ سے گزرنا ہوگا۔

اگر آپ کو کسی کمرے سے موسیقی یا گانے کی آواز سنائی دے، تو ایک بار اندر جھانک کر ضرور دیکھ لیجیے گا۔ ہو سکتا ہے میں اس وقت صحت یاب ہونے والے مریضوں کے ڈے روم میں موجود ہوں، جہاں ہم اپنی تفریح کے لیے موسیقی سنتے اور کتابیں پڑھتے ہیں۔

آج صبح جب ہیڈ ڈاکٹر اپنے اسسٹنٹس اور اٹینڈنٹس کے ہمراہ راؤنڈز پر تھے اور انہوں نے میرا معائنہ کیا تو انہوں نے وارڈ ڈاکٹر کو کچھ ہدایات لکھوائیں جو میری سمجھ سے بالا تر تھیں۔ تاہم، بعد میں مجھے یہ خوشخبری دی گئی کہ میں کل سے بستر چھوڑ کر اٹھ سکوں گا اور جلد ہی مجھے ہسپتال سے چھٹی مل جائے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ میں یہاں سے جانا بالکل نہیں چاہتا۔ یہاں کا ماحول نہایت روشن اور صاف ستھرا ہے۔ بستر اتنے نرم ہیں کہ نیند کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے، چادریں سفید دمشقی (Damask) کپڑے کی ہیں اور کمبل اتنے نفیس اور روئیں دار ہیں جیسے مخمل کے ہوں۔ ہر کمرے میں صاف پانی دستیاب ہے اور جب سرد راتیں آتی ہیں تو ہر کمرہ گرم رکھا جاتا ہے۔ کھانے کے معاملے میں بھی یہاں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی؛ تقریباً روزانہ مرغی یا بھنا ہوا مٹن ان مریضوں کے لیے ہوتا ہے جن کا معدہ اسے ہضم کر سکتا ہے۔

یہاں کا ایک واقعہ سنیں۔ میرا پڑوسی پورے ایک ہفتے سے زیادہ بیمار ہونے کا ڈھونگ رچائے ہوئے تھا، محض اس لیے کہ وہ مزید چند دن مزیدار چکن کا مزہ لے سکے۔ لیکن ہیڈ ڈاکٹر کو شک ہو گیا اور کل اسے اسکی صحت چیک کرنے کے لیے ایک روٹی اور پورا چکن کھانے کے لئے دیا گیا، جو وہ پورا کھا گیا، بعد ميں اسے گھر بھیج دیا گیا۔

اباجان، اس سے پہلے کہ میرا آخری چکن بھی روسٹ ہو جائے، آپ جلد تشریف لائیں۔

 

مندرجہ بالا خط میں بیان کردہ ہسپتال کے حالات پڑھ کر ہمیں یہ یقین کرنے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ یہ ہماری اکیسویں صدی کی جدید طبی سہولیات کا منظرنامہ پیش کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، کیونکہ یہ دراصل ایک ایسے شفاخانے کی تصویر کشی ہے جو آج سے ایک ہزار سال قبل، ہمالیہ سے قرطبہ تک پھیلے ہوئے ہر بڑے عربی شہر میں ایک لازمی اور اہم جزو کی حیثیت رکھتا تھا۔

تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ دسویں صدی عیسوی کے وسط میں تنہا قرطبہ (Cordoba) میں پچاس سے زائد ہسپتال موجود تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اندلس کے اس عظیم شہر نے تو طب کے عالمی مرکز، بغداد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا، جہاں ہارون الرشید کے عہد کے مشہور ہسپتالوں نے عالمی سطح پر اپنا لوہا منوایا تھا۔ یہ حقائق اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ اسلامی دنیا نے طب اور صحت عامہ کے شعبے میں اس وقت ایسی گراں قدر خدمات انجام دی تھیں جو آج بھی حیران کن ہیں۔

بغداد کا العدودی ہسپتال، دمشق کا نوری ہسپتال، اور قاہرہ کا منصوری ہسپتال – یہ وہ نام ہیں جو کبھی عرب دنیا کے سب سے نامور طبی اداروں اور مراکز کی پہچان تھے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے وقت کا ایک مثالی طبی مرکز تھا، جو نہ صرف علاج معالجے بلکہ علم و تحقیق کے میدان میں بھی پیش پیش تھا۔

بغداد میں العدودی ہسپتال اپنی وسیع وعریض ساخت کی وجہ سے مشہور تھا، جو کئی پویلینز پر مشتمل تھا۔ اسی طرح، دمشق کا نوری ہسپتال اپنے منفرد طرزِ تعمیر کے باعث نمایاں تھا، جہاں ہر طبی شعبے کے لیے علیحدہ عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں۔ لیکن ان سب میں سب سے زیادہ شہرت اور خوبصورتی قاہرہ کے منصوری ہسپتال کو حاصل تھی۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ نوری ہسپتال کی تعمیر ایک انسانیت دوست اور رعایا پرور حکمران، سلطان نور الدین زنگی (1146-1174) نے کروائی تھی۔ سلطان نور الدین اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔ اس ہسپتال کی تعمیر کے لیے جو رقم استعمال کی گئی، وہ ایک فرینکی بادشاہ کے تاوان سے حاصل ہوئی تھی جسے سلطان نے قید سے رہا کیا تھا۔ یہ نہ صرف ایک عظیم طبی ادارے کی بنیاد تھی بلکہ ایک ایسے حکمران کی سخاوت اور دور اندیشی کا بھی مظہر تھی جس نے اپنی عوام کی صحت کو ہمیشہ اولین ترجیح دی۔

اسلامی تاریخ کے درخشاں صفحات اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ اس دور میں طبی سہولیات کی فراہمی صرف خلفاء، سلاطین یا دولت مند افراد تک ہی محدود نہیں تھی۔ بلکہ، معروف ماہر فلکیات ثابت بن قرہ کے بیٹے اور پوتے، سنان بن ثابت اور ثابت بن سنان جیسے نامور اطباء نے بھی ہسپتالوں کے قیام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان ہسپتالوں کے ساتھ آؤٹ پیشنٹ طبی مراکز بھی قائم کیے گئے تھے جو دیہاتوں اور قیدخانوں تک کے مریضوں کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے سفر کرتے تھے۔ یہ ایک ایسا جدید نظام تھا جو آج بھی مثالی سمجھا جا سکتا ہے۔

عظیم دانشمند ابن الفرات کی انوکھی مثال:
923 عیسوی میں، بغداد کی ایک عظیم شخصیت، دانشمند ابن الفرات نے اپنی ذاتی آمدنی سے ایک منفرد پولی کلینک قائم کیا۔ یہ پولی کلینک خاص طور پر ان کے ملازمین کے لیے تھا، جہاں ان کا عملہ کسی بھی وقت مفت طبی مشورہ اور علاج حاصل کر سکتا تھا۔ یہ اس دور کی فلاحی ریاست کی ایک شاندار مثال پیش کرتا ہے، جہاں صحت کی سہولیات تک رسائی کو ہر فرد کا بنیادی حق سمجھا جاتا تھا۔

مریضوں کے لیے بے مثال آسائشیں:
ان ہسپتالوں میں مریضوں، خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، کا علاج مکمل طور پر مفت کیا جاتا تھا۔ طبی علاج پر ان کا ایک درہم بھی خرچ نہیں ہوتا تھا، بلکہ انہیں مفت رہائش، معیاری کھانا، اور تمام ضروری ادویات بھی فراہم کی جاتی تھیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ جب مریضوں کو ہسپتال سے چھٹی ملتی تھی، تو انہیں ایک ماہ کے لیے نئے کپڑے اور گزارے کا الاؤنس بھی دیا جاتا تھا تاکہ وہ صحت یابی کے بعد فوراً معاشی بوجھ تلے نہ دب جائیں۔ یہ سہولیات آج کے جدید ہسپتالوں میں بھی خال خال ہی میسر آتی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی تہذیب نے انسانی فلاح و بہبود کو کس قدر اہمیت دی تھی۔

کتاب: شمس الله تشرق على الغرب – فضل العرب على أوروبا
تالیف: ڈاکٹر سيجريد هونكه – صفحہ: 154 – 158

 

احمد صہیب ندوی
الامام گزٹ
نئی دہلی – بھارت

Email: info@al-emam.org
Al-Emam Al-Nadwi Education & Awakening Center

متعلقہ مضامین

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

- Advertisment -
Google search engine

سب سے زیادہ پڑھے جانے والے

حالیہ کمنٹس