Google search engine
صفحہ اولحدیث شریففائدہ مند علم اور نتیجہ خیز عمل، نفلی عبادات سے کہیں زیادہ...

فائدہ مند علم اور نتیجہ خیز عمل، نفلی عبادات سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں

صرف دنیوی منفعت کا حصول ہی مقصود نہیں، بلکہ علم کی جستجو اور عملِ پیہم، عبادت کے وسیع تر مفہوم کو سمجھنے کے لیے بھی ازحد ضروری ہیں۔ جب علمائے کرام اپنے علم سے دوسروں کو فیض یاب کرتے ہیں، اطباء مریضوں کا علاج کرتے ہیں، مہندسین تعمیرات کرتے ہیں، اور زراعت پیشہ افراد پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں، تو یہ تمام افعال درحقیقت خدا کی عبادت ہی کا مظہر ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو انسانیت کی خدمت اور ارضِ خدا کی بہتری کے لیے وقف کرتے ہوئے، وہ حقیقی عبادت کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ کائنات کی گہرائیوں میں اترنے والا علم اور معاشرے کے لیے مفید عمل، خدا کی قدرت اور خلق خدا کے تئیں اپنی ذمہ داری کو تسلیم کرتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ ایمان وایقان کی اعلی مثال بھی پیش کرتے ہیں۔

مفید علم اور کارآمد عمل کو اسلام میں عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا تصورِ عبادت محض نماز روزے تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے ہر مفید عمل کو محیط ہے۔ علم کا حصول اور محنتِ شاقہ سے روزی کمانا بھی عبادت میں شمار ہوتے ہیں۔ علم اور عمل کی فضیلت اس لیے بھی منفرد ہے کہ ان کا نفع صرف فرد کی ذات تک محدود نہیں رہتا، بلکہ پورے معاشرے کو فیض پہنچاتا ہے۔ ایک معلم کا تعلیم دینا، ایک طبیب کا علاج کرنا، اور ایک مزدور کا محنت کرنا – یہ سب اجتماعی عبادات کے زمرے میں آتے ہیں۔ جبکہ نفلی عبادات کا ثواب بنیادی طور پر فرد ہی تک محدود رہتا ہے۔

حقیقی اسلامی طرزِ زندگی وہ ہے جس میں مسجد کی عبادت اور کارخانے کی محنت دونوں کو اہمیت دی جائے۔ یہی وہ متوازن راستہ ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ علم کی جستجو اور مسلسل محنت، درحقیقت معاشرے کی ترقی اور عروج کی اساس ہیں، اور انصاف اور خوشحالی کے حصول کا واحد وسیلہ ہیں۔

 

اسلام زندگی کے مختلف پہلوؤں کے درمیان ایک حسین امتزاج پیدا کرتا ہے، جس میں روحانیت اور مادیت، عبادات اور مفید دنیاوی کام کاج کے درمیان کی کشمکش کو ہم آہنگ کرنا بھی شامل ہے۔ یہ ایک بنیادی سوال کو جنم دیتا ہے کہ کیا علم اور عمل عبادت کی ہی مختلف شکلیں ہیں، یا پھر یہ دو جداگانہ راستے ہیں، جو ممکنہ طور پر نفلی عبادات سے بھی زیادہ فضیلت رکھتے ہیں۔

قرآنِ حکیم اور احادیثِ نبوی ﷺ کے مطالعے سے علم اور عمل کا بلند مقام عیاں ہوتا ہے، اور یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معاشرتی ترقی میں ان کا کردار کتنا اہم ہے۔ سورۃ المجادلہ کی آیت نمبر 11 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ‘جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور جن لوگوں نے علم حاصل کیا سو اللہ تعالیٰ ان کے مدارج کو ترقی دیتا ہے اور ارتفاع بخشتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے۔’ یہ آیت مبارکہ بلا شک و شبہ علم والوں کے مقام کو خدا کے نزدیک بلند ہونے کو ثابت کرتی ہے، اور انہیں دنیا وآخرت دونوں میں اعلیٰ مقام عطا کئے جانے کا پتہ دیتی ہے۔

سورہ الزمر کی آیت نمبر 9 میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں، "(اے پیغمبر!) کہہ دیجیے کہ کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ لوگ جو علم نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں؟ بے شک نصیحت تو صرف صاحبانِ عقل ہی قبول کرتے ہیں۔” یہ استفہامیہ انداز علم کی اہمیت اور اس کی فضیلت کو نہایت مؤثر پیرائے میں بیان کرتا ہے۔ یہ سوال علم اور جہالت کے مابین واضح اور اٹل فرق کو نمایاں کرتا ہے، اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ علم ہی وہ جوہر ہے جو انسان کو دوسروں سے ممتاز اور برتر بناتا ہے۔ درحقیقت، عقل ودانش رکھنے والے ہی اس حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں اور اس سے نصیحت حاصل کرتے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت طیبہ ان گنت احادیث سے مزین ہے جو علم وعمل کی برتری اور اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو شخص طلبِ علم کی راہ پر گامزن ہوتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ سہل فرما دیتے ہیں۔ فرشتے اس کے اس عمل کی تحسین میں اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔ زمین و آسمان کی تمام مخلوقات، یہاں تک کہ دریائی مچھلیاں بھی علم حاصل کرنے والے کے لیے استغفار کرتی ہیں۔ ایک عالم کی فضیلت ایک عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چاند کی تمام ستاروں پر۔ علماء انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں، جنہوں نے وراثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑے، بلکہ علم چھوڑا ہے۔ پس جس نے اس علم کو حاصل کیا، بے شک اس نے ایک عظیم الشان حصہ پایا۔” (رواہ ابو داؤد والترمذی)

یہ مستند نبوی روایت علم کی فضیلت اور اس کے جاننے والوں کی برتری کو نہایت مؤثر انداز میں واضح کرتی ہے۔ یہ اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ علم ہی انبیاء علیہم السلام کا لازوال ترکہ ہے، جو ان لوگوں کے ذریعے اگلی نسلوں تک پہنچتا ہے جو اس کی طلب اور جستجو میں لگے رہتے ہیں۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور فرمانِ عالیشان ہے: "اگر تم میں سے کسی کے ہاتھ میں ایک ننھا سا پودا ہو اور قیامت کی گھڑی سر پر آ پہنچی ہو، اور اس کے پاس اتنی مہلت ہو کہ وہ اسے زمین میں جما سکے، تو اسے ضرور ایسا کر لینا چاہیے۔” (مسند احمد اور الادب المفرد از امام بخاری)۔ یہ حدیث مبارکہ ایک ایسے وقت میں بھی محنت اور جانفشانی کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے جب سب کچھ فنا ہونے کے قریب ہو۔ یہ عمل کام کو ایمان کا ایک اساسی جزو قرار دیتا ہے۔ اس لمحے کسی فوری اور ظاہری نتیجے کا حصول پیشِ نظر نہیں، بلکہ مسلسل جدوجہد اور کوشش کے اصول کو راسخ کرنا مقصود ہے۔ یہ حدیث زراعت اور شجرکاری کی طرف بھی رغبت دلاتی ہے، اور اہلِ ایمان کو فعال، کارآمد اور متحرک رہنے کی ترغیب دیتی ہے، نہ کہ بے عمل اور سست۔ اس میں کام کی متنوع شکلیں شامل ہیں: کھیتی باڑی، پودے لگانا، دستکاری، بڑھئی اور آہن گر کے کام، تحریر وتصنیف، اور دیگر تمام مفید سرگرمیاں۔ پس ایک مومن کو ہمیشہ کسی نہ کسی مثبت اور نتیجہ خیز عمل میں مصروف رہنا چاہیے۔

صرف دنیوی فارغ البالی ہی نہیں، بلکہ علم اور عمل عبادت کے جامع تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بھی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ علم جہاں خدا کے دین کی فہم و فراست عطا کرتا ہے، وہیں عمل روزمرہ کی زندگی میں اس کی عملی تطبیق کو یقینی بناتا ہے۔ ایک باکمال عالمِ دین، ایک ہمدرد طبیب، ایک لائق انجینئر، اور ایک جفاکش کسان—یہ سب اپنے اپنے میدان میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے درحقیقت عبادت ہی کر رہے ہوتے ہیں۔

بے شک، عباداتِ محض، مثلاً، نفلی صوم وصلوٰۃ، اسلام میں اپنی جگہ ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں، تاہم یہ دینِ اسلام کے تمام تر احاطے کی عکاسی نہیں کرتے۔ اسلام ایک ایسے متوازن اسلوبِ زندگی کی تعلیم دیتا ہے جس میں عبادت کو عملِ پیہم کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور زندگی کے روحانی اور مادی پہلوؤں میں ایک حسین امتزاج پیدا کیا جاتا ہے۔ ایک سچے مسلمان کی بندگی اس کی زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہونی چاہیے، جس میں نماز، کسبِ معاش، اور طلبِ علم سب شامل ہیں۔

علم وعمل کی جستجو کو اولیت دینے سے نفلی عبادات کی قدر ومنزلت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ بلکہ، یہ عبادت کے تصور کو ایک وسیع تر تناظر میں پیش کرتا ہے تاکہ ان تمام سودمند افعال کو بھی اس میں شامل کیا جا سکے جو افراد اپنی ذات اور اپنے معاشرے کی بھلائی کے لیے انجام دیتے ہیں۔ اپنے فن میں کمال حاصل کرنا اور اجتماعی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا بھی درحقیقت خدا کی عبادت کے ہی زمرے میں آتے ہیں، اور یہ نفلی نمازوں اور روزوں کی طرح ہی اہمیت کے حامل ہیں۔

معاشرے کی ترقی، عدل وانصاف کا قیام، اور خوشحالی کا حصول دراصل علم اور عمل کے مضبوط ستونوں پر ہی قائم ہے۔ اسلام ہمیں عملی علم کے حصول، انتھک محنت، اور بامقصد پیداوار کی ترغیب دیتا ہے، اور ان تمام کاموں کو عبادت کی ایسی باطنی صورتوں کے طور پر دیکھتا ہے جو خالقِ کائنات کے ساتھ ہمارے رشتے کو مزید مستحکم کرتی ہیں۔

یہ بات مکمل ذہن نشین رہنی چاہیے کہ علم اور عمل اسلامی طرزِ زندگی سے کسی طور پر جدا نہیں ہیں، بلکہ یہ معاشرتی ارتقاء کے لیے ایک ناگزیر اساس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ فعال انداز میں نفع بخش علم کی جستجو کریں، اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ محنت ومشقت میں مصروف رہیں اور مثبت وتعمیری کردار ادا کریں، اور اپنی زندگی کے ہر شعبے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کو سمو دیں۔

طلبِ علم، نتیجہ خیز عمل، اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مابین ایک خوشگوار توازن ہی درحقیقت دنیاوی اور اخروی سعادتوں کی کنجی ہے، اور ایک مضبوط اسلامی معاشرے کی اساس ہے۔ بلا شک و شبہ، علم کے حصول کو نفلی عبادات کے ساتھ یکجا کرنا ہی سب سے بہترین اور فضیلت والا طریقہ ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی میں اس کی بہترین مثال قائم کی؛ وہ اپنی راتوں کو تین حصوں میں تقسیم فرماتے تھے: ایک حصہ تصنیف وتالیف کے لیے، دوسرا حصہ نماز و عبادت کے لیے، اور تیسرا حصہ آرام کے لیے مخصوص تھا۔

 

احمد صہیب ندوی
الامام گزٹ
نئی دہلی – بھارت

Email: info@al-emam.org
Al-Emam Al-Nadwi Education & Awakening Center

متعلقہ مضامین

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

- Advertisment -
Google search engine

سب سے زیادہ پڑھے جانے والے

حالیہ کمنٹس