Google search engine
صفحہ اولقرآن مجیدمایوسی اور ناامیدی کفر ہے: ایمان میدان عمل میں - سخت ترین...

مایوسی اور ناامیدی کفر ہے: ایمان میدان عمل میں – سخت ترین لمحات میں امید کی کرن روشن کرنے والی اسلامی تعلیمات

آج کی برق رفتار اور تناؤ بھری زندگی میں، جہاں خوف، مایوسی، افسردگی اور ناامیدی ایک عام وبا کا درجہ حاصل کر چکی ہیں، اسلام کی نورانی تعلیمات، بالخصوص قرآن پاک کی حکمت بھری آیات، ہمارے روحانی اور جذباتی مسائل کا مؤثر حل پیش کرتی ہیں۔ قرآن مجید کی یہ آیت، 'اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، صاحب ایمان لوگ کبھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے۔' (یوسف 12:87)، اسلامی عقیدے میں 'امید' کی لافانی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ آیت ہمیں یہ یقین دلاتی ہے کہ مصائب اور آزمائشوں کے باوجود، اللہ کی رحمت کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رہتا ہے، اور ہمیں کبھی بھی ناامیدی کے اندھیروں میں نہیں کھونا چاہیے۔ اسلام کی تعلیمات ہمیں صبر، استقامت اور توکل کا انمول درس دیتی ہیں، جو ہمیں مشکل ترین حالات میں بھی پرامید رہنے اور مثبت سوچ کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

بے شک، خداوندِ قدیر تمام دروازوں کا مالک ہے، چاہے وہ دور ہوں یا نزدیک، دشوار ہوں یا آسان۔ وہ ہر مشکل کو آسان بنانے اور ہر ناممکن کو ممکن کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اگر اُس کی مرضی ہو تو وہ پلک جھپکتے میں تمام راستے کھول سکتا ہے، اور چاہے تو بند بھی کر سکتا ہے۔ اگر ہزاروں رکاوٹیں بھی تمہارے اور اُس کی سخاوت کے درمیان حائل ہوں، لیکن وہ تم پر اپنا فضل نازل کرنے کا ارادہ کر لے، تو وہ تمہیں ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے تمہارا گمان بھی نہ ہوگا۔ ایسی صورت میں تمھاری مشکلیں آسان کرے گا کہ تم حیرت زدہ رہ جا‌ؤگے۔ تمہارے لیے جو کچھ مقدر ہے، وہ ضرور پورا ہو گا، چاہے رکاوٹیں کتنی ہی ناقابلِ تسخیر کیوں نہ ہوں۔ اُسی کی عظمت ہے، اُسی کی بادشاہی ہے، اور اسی کے پاس کامل قدرت ہے۔
آئیے مایوسی، ناامیدی اور افسردگی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا تجزیہ کریں، اور ان کا موازنہ قرآن کی امید، استقامت اور اللہ کی رحمت پر توکل کی لازوال تعلیمات سے کریں۔ ہمارا پختہ یقین ہے کہ مایوسی، جو آج ایک وبائی مرض کی صورت اختیار کر چکی ہے، محض ایک نفسیاتی عارضہ نہیں بلکہ ایک روحانی بحران بھی ہے۔ اسلام کی تعلیمات اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ایک جامع اور موثر حل پیش کرتی ہیں۔ یہ تعلیمات ہمیں مشکلات میں صبر اور امید کا دامن تھامے رہنے کی ترغیب دیتی ہیں، اور یہ یقین دلاتی ہیں کہ اللہ کی رحمت ہر چیز پر غالب ہے۔

مایوسی اور ناامیدی دور حاضر کی ایک خاموش وباء:

جدید دور میں مایوسی ایک خاموش وبا کی طرح پھیل رہی ہے۔ تیز رفتار زندگی، معاشی دباؤ، سماجی تنہائی اور ڈیجیٹل دنیا کے منفی اثرات نے لوگوں کے دلوں میں ناامیدی کے بیج بو دیے ہیں۔ مادہ پرستی، عدم تحفظ اور بے مقصدیت نے اس مرض کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ مایوسی انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کر دیتی ہے، تعلقات کو نقصان پہنچاتی ہے اور زندگی کو بے رنگ بنا دیتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، افسردگی دنیا بھر میں معذوری کی ایک بڑی وجہ ہے، جو 264 ملین سے زیادہ لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔ مایوسی کا یہ پھیلاؤ صرف ایک طبی یا نفسیاتی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک روحانی بحران ہے جو ایمان، مقصدیت اور خدائی رحمت سے دوری کو ظاہر کرتا ہے۔

مایوسی، جو دراصل ناامیدی کا دوسرا نام ہے، امید کی روشنی بجھ جانے کا دردناک احساس ہے۔ یہ ایک ایسی پریشان کن ذہنی کیفیت ہے جو انسان کو اس گہرے یقین میں مبتلا کر دیتی ہے کہ اس کے حالات کبھی بہتر نہیں ہوں گے، اس کی ہر کوشش بے سود ہے، اور وہ اپنے دکھوں میں بالکل تنہا ہے۔ یہ منفی سوچ نہ صرف انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے بلکہ ایک زہریلے پودے کی طرح بڑھتی ہی چلی جاتی ہے، کیونکہ یہ بے بسی اور تنہائی کے احساس کو اور بھی گہرا کرتی ہے۔ آج کل کی تیز رفتار زندگی میں مایوسی اکثر بیرونی دباؤ اور مشکلات کا نتیجہ ہوتی ہے، لیکن اس کی جڑیں ہمارے باطنی تضادات میں بھی پیوست ہوتی ہیں۔ زندگی کے معنی، اس کا مقصد، اور خدا کے انصاف پر شکوک وشبہات جیسے گہرے سوالات بھی مایوسی کے دلدل میں دھکیل سکتے ہیں۔

مایوس ہونا اللہ کی لامحدود رحمت اور طاقت سے انکار کرنا ہے:

قرآن مجید مایوسی کو محض ایک جذباتی حالت نہیں بلکہ ایک سنگین روحانی بیماری قرار دیتا ہے، جو ایمان کی کمزوری کی عکاسی کرتی ہے۔ سورہ یوسف کی آیت 87 میں ارشاد ہے: "اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقیناً اللہ کی رحمت سے صرف وہی لوگ مایوس ہوتے ہیں جو ایمان نہیں رکھتے۔” یہ آیت اسلامی تعلیمات میں امید کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ مایوسی درحقیقت اللہ کی لامحدود رحمت اور قدرت کا انکار ہے، اور یہ بھول جانا ہے کہ وہی ذات راحت اور رہنمائی کا اصل سرچشمہ ہے۔ اس تناظر میں، مایوسی صرف ایک ذاتی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ کی حکمت اور شفقت کو جانے انجانے میں جھٹلانا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ کی رحمت ایک لازوال اور ہمہ گیر حقیقت کے طور پر جلوہ گر ہوتی ہے، جو ہر سمت پھیلی ہوئی اور ہر دل کو چھونے والی ہے۔ یہ رحمت کسی شرط یا قید سے مبرا ہے، جو ہر اس شخص کے لیے ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ سورہ الزمر (39:53) میں یہ دلنشین آواز گونجتی ہے، ”اے نبی ﷺ کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے، وہ تو غفور ورحیم ہے“۔

یہ آیت مومنین کے دلوں میں ایک اطمینان اور یقین پیدا کرتی ہے کہ ان کی خطائیں چاہے کتنی ہی سنگین ہوں یا ان کے حالات کتنے ہی ناگوار ہوں، اللہ کی رحمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔ یہ رحمت اس تاریک ترین لمحے میں بھی ایک روشن ستارے کی طرح چمکتی ہے، جب ناامیدی کے بادل چھائے ہوتے ہیں۔

مایوسی اور ناامیدی کے نفسیاتی اور روحانی پہلو:

نفسیاتی طور پر، مایوسی اکثر بے بسی، بے قدری اور تنہائی کے گہرے احساسات سے جڑی ہوتی ہے۔ یہ جذبات کسی شخص کو افسردگی کے ایسے گہرے بھنور میں دھکیل سکتے ہیں جہاں وہ مدد طلب کرنے یا اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کا حوصلہ کھو بیٹھتا ہے۔ قرآن مجید میں مایوسی سے سختی سے منع کیا گیا ہے، اور یہ بحالی کے لیے ایک مضبوط روحانی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی مسلسل یاد دہانی کراتے ہوئے، قرآن مومنین کو اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے، مزید آگے بڑھانے اور نجات کے مواقع کے طور پر دیکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ مایوسی کے اندھیرے بھنور سے نکلنے کا ایک راستہ فراہم کرتا ہے اور مشکل ترین لمحات میں بھی امید کی کرن روشن رکھتا ہے۔

سورہ یوسف (12) میں حضرت یعقوب علیہ السلام کا دلگداز قصہ، ناامیدی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھی امید کی روشن شمع جلائے رکھنے کا ایک بے مثال نمونہ ہے۔ اپنے لخت جگر یوسف علیہ السلام کے گم ہو جانے کے جان لیوا صدمے سے دوچار ہونے کے باوجود، حضرت یعقوب علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی رحمت پر اپنے یقین کو متزلزل نہ ہونے دیا۔ آپ نے اپنے غم و اندوہ کا اظہار صرف اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کیا اور، "کہا میں تو اپنی پریشانی اور غم کا اظہار اللہ ہی کے سامنے کرتا ہوں اور اللہ کی طرف سے میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔” (قرآن 12:86) حضرت یعقوب علیہ السلام کا یہ غیر متزلزل ایمان اور صبر یہ واضح کرتا ہے کہ مصیبت کا لازمی نتیجہ مایوسی نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا امتحان ہے جس پر اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھ کر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ قصہ ہمیں سکھاتا ہے کہ مشکل ترین حالات میں بھی امید کا دامن تھامے رکھنا اور اللہ تعالیٰ کی حکمت پر یقین رکھنا ہی درحقیقت کامیابی کا راستہ ہے۔

امید: اسلامی تعلیمات کا ایک ستون

اسلامی تعلیمات میں امید ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتی ہے، جو مایوسی کے اندھیروں میں روشنی کا کام کرتی ہے۔ قرآن مجید اور احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر قسم کی آزمائش اور مصیبت میں بھی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک اس کی بہترین مثال ہے کہ "اگر ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ دو وادیاں چاہے گا، اور اس کا پیٹ مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ اور اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے جو اس سے توبہ کرتا ہے۔” (صحیح بخاری) یہ حدیث انسانی فطرت کی لالچ اور زیادہ کی خواہش کو بیان کرتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ مومنین کو یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ حقیقی سکون اور اطمینان صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت حاصل کرنے میں ہے۔

مایوسی اور ناامیدی پر قابو پانے کے لئے اسلام کا عملی سبق

اسلام مایوسی پر قابو پانے اور امید کو پروان چڑھانے کے لیے طاقتور اور عملی طریقے فراہم کرتا ہے۔ یہ طریقے نہ صرف ہمیں مشکل حالات کا سامنا کرنے کی ہمت دیتے ہیں، بلکہ ہمیں زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے بھی راہ دکھاتے ہیں۔ ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:

  • اللہ پر یقین اور توکل: توکل، دراصل، اللہ تعالیٰ پر غیر متزلزل یقین اور بھروسہ کرنے کا نام ہے۔ یہ محض خالی الذہن انتظار نہیں، بلکہ اپنی تمام تر صلاحیتوں اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے، نتیجہ اللہ کی حکمت کے سپرد کرنے کا عمل ہے۔ یہ ایک ایسی مضبوط ڈھال ہے جو مومنین کو مایوسی اور جمود کے اندھیروں سے بچاتی ہے۔ توکل انسان کو فعال اور متحرک بناتا ہے، اسے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتا ہے، اور اس کے دل میں اللہ کی رحمت اور مدد پر کامل ایمان راسخ کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا نور ہے جو ناممکنات کو ممکنات میں بدلنے کی قوت عطا کرتا ہے اور انسان کو ہر حال میں پرامید رہنے کا درس دیتا ہے۔
  • نماز اور دعا: نماز، مناجات اور تلاوتِ کلامِ پاک کے ذریعے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا مسلسل ذکر بندگانِ خدا کو اپنے پروردگار سے مضبوط رشتہ قائم رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ ذکر، دلوں کو سکونِ خاطر اور گہری تسلی بخشتا ہے، اور انسان کو یہ پختہ احساس دلاتا ہے کہ وہ اپنی آزمائشوں میں کبھی بھی تنہا اور بے یار و مددگار نہیں ہے۔ بلکہ ہر لمحہ، ہر گھڑی اُس کا خالق اُس کے ساتھ ہے۔
  • صبر اور شکر: صبر ایک ایسی لازوال صفت ہے جس کی اہمیت قرآن پاک میں بارہا اجاگر کی گئی ہے۔ یہ محض مصائب کو برداشت کرنے کا نام نہیں، بلکہ وقار اور استقامت کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنے کا فن ہے۔ صبر کا جوہر اس پختہ یقین میں پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ صحیح اور بروقت ہے، اور ہر آزمائش کے بعد آسانی ضرور آتی ہے۔ یہ یقین انسان کو مایوسی کے اندھیروں میں بھٹکنے سے بچاتا ہے اور اسے چیلنجوں سے نمٹنے کی قوت عطا کرتا ہے۔ صبر کی بدولت انسان نہ صرف اپنی مشکلات پر قابو پاتا ہے، بلکہ ایک مضبوط اور پرسکون شخصیت کا مالک بھی بنتا ہے۔ دوسری جانب قرآن پاک اہلِ ایمان کو یہ حکمت سکھاتا ہے کہ مصائب پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے، اللہ تعالیٰ کی ان بے شمار نعمتوں پر غور و فکر کریں جو ہمیں عطا کی گئی ہیں۔ شکرگزاری کا یہ عمل ہماری توجہ کو ان چیزوں سے ہٹا دیتا ہے جو ہمارے پاس نہیں ہیں، اور ان نعمتوں پر مرکوز کر دیتا ہے جو کثرت سے موجود ہیں۔ اس طرح، دل میں امید اور قناعت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں، اور انسان ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے۔
  • نیک لوگوں کی صحبت: نیک لوگوں کی صحبت ہمیں مثبت سوچ رکھنے کی ترغیب دیتی ہے۔ جب ہم نیک لوگوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، تو ہم ان سے سیکھتے ہیں اور ان کی اچھی عادات کو اپناتے ہیں۔
  • صدقہ اور خیرات: صدقہ اور خیرات کرنے سے ہمیں دوسروں کی مدد کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جب ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں، تو ہمیں خوشی اور اطمینان ملتا ہے۔ یہ خوشی ہمیں مایوسی سے بچاتی ہے۔

آج کی دنیا، جو خوف، مایوسی اور ناامیدی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ڈوبتی جا رہی ہے، اسلام کی لازوال تعلیمات امید اور استقامت کا نورِ ہدایت بن کر جلوہ گر ہوتی ہیں۔ قرآنِ حکیم میں مایوسی کو کفر قرار دینا، ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ تاریک ترین لمحات میں بھی اللہ رب العزت کی رحمت پر کامل یقین رکھنا لازمی ہے۔ ایمان، امید، توکل اور صبر جیسی لازوال صفات سے آراستہ ہو کر مایوسی کی اس جدید بیماری پر ہم باآسانی قابو پا سکتے ہیں اور اس یقینِ کامل سے اپنے دلوں کو سکون بخش سکتے ہیں کہ اللہ کی رحمت لامحدود اور ہمیشہ موجود ہے۔ جیسا کہ قرآنِ مجید ہمیں یاد دلاتا ہے، "پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بیشک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔” (قرآن 94-5:6) ان نورانی الفاظ میں امید کا روشن وعدہ، مایوسی کا شافی علاج، اور روحانی وجذباتی فلاح وبہبود کا واضح راستہ پوشیدہ ہے۔

احمد صہیب ندوی
الامام گزٹ
نئی دہلی – بھارت

Email: info@al-emam.org
Al-Emam Al-Nadwi Education & Awakening Center

متعلقہ مضامین

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

- Advertisment -
Google search engine

سب سے زیادہ پڑھے جانے والے

حالیہ کمنٹس