- شیخ عطاء الرحمن مدنی صاحب (5 جون 1934 – 27 ستمبر 2024) ایک ایسے عظیم عالم دین تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی علمی صلاحیتوں سے بلکہ اپنی نیک سیرت اور کردار سے بھی لوگوں کو متاثر کیا۔
- بہار کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے ایک فاضل شخص تھے جنہوں نے اپنی تعلیم سعودی عرب میں حاصل کی تھی۔ انہوں نے کئی اداروں میں خدمات انجام دیں اور متعدد کتابیں لکھیں۔ ان کی زندگی دین داری، پرہیزگاری اور امانتداری کے اعلیٰ معیار کی ایک مثال تھی۔
- میں اس تاثراتی مضمون میں صرف ان کے اخلاقی اور مربیانہ کردار پر روشنی ڈالنا چاہوں گا جس کا مجھے ذاتی طور پر تجربہ حاصل ہے۔
سن دو ہزار کا موسم سرما عنفوان شباب پر تھا۔ سرد ہواؤں کے تھپیڑوں نے زندگی مشکل کر رکھی تھی۔ کہیں کسی غریب کی کٹیا پر لٹکے پردوں کو زور سے اڑاتی، تو کہیں کسی امیر کے دل میں مایوسی کے دبیز اندھیروں میں مزید شدت پیدا کردیتی تھی۔
ان دنوں رمضان سردیوں میں پڑتا تھا اور مدارس کا تعلیمی سال رمضان پر آکر ختم ہوجاتا ہے۔ ندوۃ العلماء سے فراغت حاصل کرکے آٹھ جنوری کو میں دہلی کے لیے راونہ ہو گیا۔ دل میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں داخلہ لینے کا ارادہ تھا۔ مگر چونکہ داخلے کا وقت مئی یا جون تھا، اس لیے چند مہینوں کے لیے مجھے کسی مشغولیت یا یوں کہیں کہ نوکری کی تلاش تھی۔
ایک دوست نے مجھے اطلاع دی کہ شاہین باغ میں واقع ایک اردو میگزین میں ایک جگہ خالی ہے۔ میں نے فوری طور پر وہاں جانے کا فیصلہ کیا اور صبح قریب گیارہ بجے پہنچ گیا۔ یہ میری شیخ صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔
شیخ صاحب پیام توحید میگزین کی ذمہ داریاں سنبھال رہے تھے اور ان کو ایک معاون کی ضرورت تھی جسے اردو ٹائپنگ بھی آتی ہو۔
میں اپنے دوست کے ساتھ ان کے دفتر پہنچا۔ انٹرویو شروع ہوا، انٹرویو میں شیخ کے ساتھ ایک صاحب اور بھی موجود تھے جو شیخ سے بھی زیادہ سوالات پوچھ رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کیا آپ کو اردو ٹائپنگ آتی ہے۔ میں نے کہا، نہیں آتی لیکن سیکھ لوں گا۔ انہوں نے کہا، نہیں ہمیں تو سیکھا ہوا بندہ چاہئے۔
اسی دوران شیخ صاحب نے مجھ سے چند دوسرے سوالات کئے اور بڑے ہی مشفقانہ انداز میں کہا، وہ تو آپ سیکھ ہی لیں گے نا؟ میں نے فورا کہا جی ضرور سیکھ لوں گا۔
اسی وقت شیخ نے کہا کہ ان کو رکھ لو اور مستقل پریکٹس کے لیے ایک کمپیوٹر بھی دے دو۔ جو دوسرے صاحب انٹرویو میں موجود تھے، وہ منہ بسورتے رہے اور دھیرے دھیرے کچھ کہتے رہے، کہ ان کو تو ٹائپنگ بھی نہیں آتی۔ لیکن شیخ نے ایک نہ سنی۔ اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ تنخواہ بھی اتنی رکھی جتنی شاید آج کے زمانے میں تقریبا 22 سال کے بعد اس کام اور وقت کے لیے ملتی ہے۔
یہ واقعہ میں نے کیوں ذکر کیا اس کو سمجھنے کے لیے ایک اور دوسرا واقعہ سنئے۔
سن دو ہزار سات میں میں دبئی کی ایک بہت بڑی کمپنی کے HR آفس میں، جو کہ دیرہ دبئی میں واقع ہے، انٹرویو کے لیے گیا۔ انہیں ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو عربی جانتا ہو اور عربی ٹائپنگ سے بھی واقفیت رکھتا ہو۔ انٹرویو لینے والے منیجر صاحب کافی پڑھے لکھے اور امریکہ سے ڈگری حاصل کرچکے تھے۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا میں عربی ٹائپ کر سکتا ہوں، میں نے کہا کہ نہیں، لیکن میں سیکھ لوں گا۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ انہیں فوری طور پر ایک ایسا شخص چاہیے جو پہلے سے ہی عربی ٹائپنگ جانتا ہو۔ میں نے کہا، آپ میری زبان چیک کرلیں اور ٹائپنگ میں جلد ہی سیکھ لوں گا۔ بہر حال انہوں نے ٹائپنگ نہ آنے کی وجہ سے مجھے نہیں لیا۔ لیکن بعد میں احساس ہوا کہ اس میں ایک بڑا خیر پوشیدہ تھا۔
اب ہم شیخ صاحب کے دفتر کی طرف واپس چلتے ہیں۔ میں نے چند روز میں ہی اردو ٹائپنگ سیکھ لی اور پھر بھرپور محنت سے کام کیا۔ میں نے تقریباً دو سال تک ان کے ساتھ کام کیا اور پھر اپنی دیگر مصروفیات کی وجہ سے وہاں سے جانے کا فیصلہ کیا۔
شیخ صاحب جانتے تھے کہ قیمت علم اور زبان کی ہے، اور ٹائپنگ تو چھوٹی سی چیز ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ میں نے ندوة العلماء سے تعلیم حاصل کی تھی اور اس "جماعت” سے کوئی تعلق نہیں تھا جس کے وہ امام تھے۔ مطلب یہ کہ ان سے پہلے سے کوئی شناسائی نہیں تھی، کوئی تعلق نہیں تھا، اور کوئی سفارش بھی ساتھ نہیں تھی۔
ایک بار ایک صاحب دفتر میں آئے اور کہنے لگے، شیخ صاحب میرے پاس ایک بندہ ہے جو بنارس سے فارغ ہے اور اپنی "جماعت” کا ہے، اس کو ان کی جگہ رکھ لیجئے۔ مولانا نے عجیب نظروں سے ان کو دیکھا اور بہت برہم ہوئے۔
ایک بار کسی مسئلے پر گفتگو کرتے وقت میں نے ان سے پوچھا، شیخ کیا آپ نے کوئی کتاب انگریزی میں بھی لکھی ہے۔ انہوں نے کہا افریقہ میں دعوتی قیام کے دوران بہت سارے مقالات اور کتابچے مکمل طور سے انگریزی میں تحریر کئے تھے۔
شیخ کے پاس ایک کار تھی، سب کہتے تھے کہ اس کا انجن اٹلی سے امپورٹ کیا ہوا ہے۔ کبھی کبھی ہم لوگوں کو بھی اس میں بیٹھنے کا موقع مل جاتا تھا۔
ایک سال کے بعد میں نے جامعہ سے جواہر لال نہرو یونیورسٹی جانے کا فیصلہ کیا۔ اور وہیں ہاسٹل میں قیام بھی کرنا تھا، جبکہ شیخ کا دفتر شاہین باغ میں تھا۔
میں نے شیخ کو بتایا کہ میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی جارہا ہوں اور اب شاہین باغ میں قیام نہیں رہے گا۔
مولانا نے کہا، پھر کیسے ہوگا؟
میں نے کہا، مجھے نوکری کی ضرورت تو ہے لیکن میرا جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں داخلہ لینا بھی بہت ضروری اور ترجیحات میں شامل ہے۔
یہ منظر سوچ کر آج بھی طبیعت مچل جاتی ہے۔ شیخ نے دو منٹ تک سر نیچے جھکایا اور پھر کہا، ٹھیک ہے۔ اب سے آپ صرف سنیچر اور اتوار کو آئیں گے اور اسی دو دنوں میں سارا کام ختم کرکے چلے جائیں گے۔ اور آپ کا قیام وطعام بھی یہیں ہوگا، اور تنخواہ بھی وہی رہے گی جو ابھی ہے۔ اس بلڈنگ کے ذمہ دار کو بلاکر ضروری ہدایت بھی دے دی۔
اس کے بعد سے میں صرف سنیچر اور اتوار کو آتا اور کام ختم کرکے چلا جاتا۔
اپنی طالب علمی کا زمانہ ذہن ميں لائیں، عام طور پر طلبہ کی زبوں حالی کے بارے میں سوچیں اور پھر شیخ صاحب کے اس کرم پر غور کریں۔
یہ سلسلہ تب تک چلتا رہا جب تک کہ میں نے خود ہی اپنی تعلیم کو ترجیح دیتے ہوئے شیخ سے معذرت نہیں کرلی۔ پھر بھی شیخ نے کہا کہ تعلق میں رہيں اور گھر آتے رہیں۔
دفتر والی بلڈنگ میں جتنے لوگ رہتے تھے عموما سبھی شیخ کو نانا کہتے تھے۔ کبھی کبھی گفتگو کے دوران میرے بھی منھ سے نانا نکل جاتا، وہ مسکراتے، کبھی تعجب خیز انداز میں، اور کبھی بس یوں ہی۔
ایک بار میں نے شیخ سے کہا کہ میں بھی مضامین لکھنا چاہتا ہوں۔ مولانا نے کہا بالکل شروع کریں، میں نے ایک مضمون لکھ کر ان کے سامنے پیش کیا۔ شیخ نے بڑے ہی مشفقانہ اور مربیانہ انداز میں اصلاحات کیں اور لکھنے کا طریقہ بھی بتایا، کچھ خاص نکات کی طرف توجہ مبذول فرمائی جسے ہر مضمون نگار کو جاننا چاہئے۔
شیخ کو اردو، عربی اور انگریزی (بنگالی بھی لیکن میرا اس سلسلہ میں تجربہ نہیں) پر عبور حاصل تھا۔ جی ہاں انگریزی اور عربی پھر بھی۔ اس عمر میں بھی علم کی تشنگی اتنی زیادہ تھی کہ ایک بار کہنے لگے کہ میں عربی میں تاریخی مجلات ڈھونڈ رہا ہوں۔ میں نے فورا لیکن بس یوں ہی (بس یوں ہی اس وجہ سے کیوں کہ مجھے مکمل معلومات حاصل نہیں تھیں) کہہ دیا کہ، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب (مجلة التاریخ الاسلامی) نکالتے ہیں۔ شیخ شام ہی کو ان کے گھر پہنچ گئے اور مجلہ کے بارے میں پوچھنے لگے۔ دوسرے دن دفتر میں آئے اور بتایا کہ کل میں ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب کے یہاں گیا تھا، لیکن انہوں نے اس مجلہ کو بند کردیا ہے کیوں کہ اس موضوع پر لکھنے والے نہیں مل رہے تھے۔
میگزین تیار کرکے میں ان کی خدمت میں پیش کرتا، وہ دیکھتے اور پلک جھپکتے ہی غلطیوں کی نشاندہی کردیتے اور اصلاح کے لیے بھیج دیتے۔
بہت کچھ ہے لکھنے کو، جتنا لکھا جائے کم ہے۔ بس اسی پر بس کرتا ہوں۔
شیخ صاحب کی شخصیت کا سمندر اتنا گہرا تھا کہ اس کے ہر قطرے میں ایک الگ دنیا سمائی ہوئی تھی۔ وہ ایک ایسے پختہ انسان تھے جن کی شخصیت کے ہر پہلو پر ایک نیا مضمون لکھا جا سکتا ہے۔
؎
آہ! یہ دُنیا، یہ ماتم خانۂ برنا و پِیر
آدمی ہے کس طلسمِ دوش و فردا میں اسِیر!
کتنی مشکل زندگی ہے، کس قدر آساں ہے موت
گُلشنِ ہستی میں مانندِ نسیم ارزاں ہے موت
زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
کیسی کیسی دُخترانِ مادرِ ایّام ہیں!
کُلبۂ افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں، شہر میں، گُلشن میں، ویرانے میں موت
صهيب ندوي
لاہوت اردو ڈائجسٹ
سوشل میڈیا پر ہم سے جڑیں:
https://www.facebook.com/LaahootUrdu